دنیا میں اونچا رہے جھنڈا ہمارا
(تحریر سمینہ راجہ Sameena Raja JK)
کافی عرصے سے قارئین کرام ریاست جموں و کشمیر کے قومی پرچم کو لے کر کچھ سوالات کرتے رہے ہیں ۔
تو عرض یوں ہے کہ ہمارا ملک جموں و کشمیر 16 مارچ 1846 کو معائدہ امرتسر کے ذریعے قائم کیا گیا تھا ۔ یہ ملک ایک سو ایک سال تک ایک سیاسی، قومی و انتظامی وحدت کی شکل میں برقرار رہا ۔ اس ملک کا اپنا الگ قانون، عدالتی نظام، انتظامی مشینری، کرنسی اور زرد کناروں والا سرخ قومی پرچم تھا ۔
جب اس ملک کو 22 اکتوبر 1947 کے قبائلی حملے کے ذریعے تقسیم کر کے 24 اکتوبر 1947 کو سرینگر/جموں کے بجائے مظفرآباد کو دارالحکومت قرار دے کر پاکستان کی جارحیت کی بنیاد اور منشاء کے مطابق ایک مسلمان حکومت قائم کی گئی تو مظفرآباد کی اس پاکستانی حکومت نے ریاست کے قومی پرچم کی جگہ سفید پٹیوں والا سبز اور زرد نیا پرچم بھی اپنایا ۔ اس پرچم کو آزادکشمیر کا پرچم کہا جاتا ہے ۔ نام نہاد آزادکشمیر کے اس پاکستانی پرچم کو اور اس پاکستانی اور مسلمان حکومت کو ریاست کے باقی حصوں میں قبول نہ کیا گیا اور یوں ریاست تقسیم ہو گئی ۔ ریاست کے دوسرے حصوں میں ایک الگ عوامی حکومت قائم کر دی گئی اور اس حکومت نے بھی متحدہ ریاست کے پرچم کی جگہ ایک سیاسی پارٹی کا چربہ پرچم اپنا لیا ۔
یوں ریاست کی تقسیم کے ساتھ دو نئے پرچم بھی اپنا لئیے گئے اور متحدہ ریاست کا قومی پرچم ترک کر دیا گیا ۔
اب سات دہائیوں کی اس مذہبی تقسیم نے ریاست کی مختلف مذہبی اور جغرافیائی اکائیوں کو ایک دوسرے سے اس قدر دور کر دیا ہے کہ تقسیم کی لکیر کے ایک طرف کے لوگ تقسیم کی لکیر کے دوسری طرف کی کسی چیز پر اتفاق نہیں کرتے ۔
ان حالات میں ریاست کی وحدت اور یکجہتی کی بحالی ایک نہایت مشکل اور صبرآزما کام ہے ۔
میں سمجھتی ہوں کہ اب ریاست کی وحدت اور یکجہتی کی بحالی کی جدوجہد ریاست کے تاریخی اور مسلمہ متحدہ وجود کے تصور سے ہی جنم لے سکتی ہے ۔
اور اب ہمارے پاس متحدہ ریاست کی کوئی نشانی باقی نہیں بچی ہے ۔ ہمارے متحدہ ملک کے قانونی ڈھانچے، عدالتی نظام، کرنسی، شناخت اور تاریخ سبھی کو نیست و نابود کر دیا گیا ہے ۔ قابض ممالک ہمارے قومی وجود کے ان عناصرِترکیبی کو مٹا کر ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے صفحئہ ہستی سے فنا کر دینا چاہتے ہیں ۔
ان حالات میں ہمارے پاس اپنے متحدہ ملک کی صرف ایک علامت باقی بچی ہوئی ہے ۔۔۔اور وہ ہے متحدہ ریاست کا قومی پرچم جو بانی ریاست مہاراجہ گلاب سنگھ نے اپنے دور حکومت میں بنوایا تھا ۔ ہمارا ایمان ہے ۔۔۔کہ اب صرف اسی پرچم کو لے کر ریاست کو دوبارہ متحد کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ پرچم اس بات کا ثبوت ہے۔۔۔ کہ ہم تاریخی طور پر ایک مشترکہ قومی، سیاسی اور انتظامی وجود رکھتے تھے ۔ وگرنہ اس مشترک تاریخ کی ہمارے پاس اب اور تو کوئی بھی علامت باقی نہیں بچی ۔
اس لئیے جو لوگ ریاست کے وجود کو بچانا چاہتے ہیں ان سے میری استدعا ہے وہ قومی ریاستی پرچم کو بنیاد بنا کر مادرِوطن کی وحدت اور یکجہتی کی بحالی کی سنجیدہ عملی جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر